Flag

Well Come

Marquee

Web Maker: Zulfiqar Ali Sandhila < > EMail. <>Zulfiqaralii@yahoo.com <>Mobile# <> 0322 6281852 <> Please Sign in and Join

Urdu Poetry




ساغر  صد یقی

(1)
کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں*کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں*تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں*یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں*تھا بہار سے پہلے

(2)




شمع اس راہ پہ جلی ہے ابھی

رنج کی شب کہاں ڈھلی ہے ابھی

گل کھلے ہیں تمہاری آہٹ سے

آنکھ مہتاب نے ملی ہے ابھی

دل کہ جس کو فقیر کہتے ہیں

ایک اجڑی ہوئی گلی ہے ابھی

کاروبار جنوں کی گمنامی

شہرت عقل سے بھلی ہے ابھی

چاند اتریں گے رھگزاروں میں

رسم تابندگی چلی ہے ابھی

اب طبیعت بحال ہے ساغر

کچھ ذرا من میں بے کلی ہے ابھی

(3)



حن کعبہ بھی یہیں ہے تو صنم خانے بھی

دل کی دنیا میں گلستان بھی ہیں ویرانے بھی

لوگ کہتے ہیں اجارہ ہے ترے جلووں پر

اتنے ارزاں تو نہیں ہیں ترے دیوانے بھی

آتش عشق میں پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

مجرم سوز وفا شمع بھی پروانے بھی

کچھ فسانوں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے

کچھ حقیقت سے بنا لیتے ہیں افسانے بھی

میرے اشعار ہیں تصویر تمنا ساغر

ان کی آغوش میں ہیں درد کے افسانے بھی

(4)



پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے

نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو ہنس دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے

اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے

بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے

رنگِ شفق سے آگ شگوفوں میں لگ گئی
ساغر ہمارے ہاتھ سے چھلکا تو رو دیے

(5)



مَیں تلخئی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا

چَھلکے ہوئے تھے جام، پریشاں تھی زُلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

مَیں آدمی ہُوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اِن سے گِلہ ہی کیا
پُھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجئے حُضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا

(6)



خُون بادل سے برستے دیکھا
پُھول کو شاخ پہ ڈستے دیکھا

کتنے بیدار خیالوں کو یہاں
دامِ اخلاص میں پھنستے دیکھا

دِل کا گُلشن کہ بیاباں ہی رہا
ایسا اُجڑا کہ نہ بَستے دیکھا

کھل گیا جن پہ مسرّت بَھرم
پھر کبھی ان کو نہ ہنستے دیکھا

اب کہاں اشکِ ندامت ساغر
آستینوں کو ترستے دیکھا

(7)




رُودادِ محبت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کچھ بُھول گئے

جب جام دیا تھا ساقی نے جب دَور چَلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مُجروح ترنم رقصاں ہے
بیدار مشیّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

احساس کے میخانے میں کہاں اَب فکرو نظر کی قندیلیں
آلام کی شِدّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

کُچھ حال کے اندھے ساتھی تھے کُچھ ماضی کے عیّار سَجن
احباب کی چاہت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

کانٹوں سے بھرا ہے دامنِ دِل شبنم سے سُلگتی ہیں پلکیں
پُھولوں کی سخاوت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے

اَب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہانی لگتی ہے
دُنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے






احمد  فراز

(1)




اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

(2)




میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعئہ فال میرے نام کا اکثر نکلا

تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا

شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا

تو یہیں ہار گیا ہے میرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

(3)




ہنسے تو آنکھ سے آنسوں رواں ہمارے ہویے
کہ ہم پہ دوست بہت مہراباں ہمارے ہویے

بہت سے زخم ہیں ایسے جو ان کے نام کے ہین
بہت سے قرض سر دوستاں ہمارے ہویے

کہی تو آگ لگی ہے وجود کے اندر
کویی تو دکھ ہے کہ چہرے دھواں ہمارے ہویے

گرج برس کے نہ ہم کو ڈبو سکے بادل
تو یہ ہوا کہ وہی بادباں ہمارے ہویے

فراز منزل مقصود بھی نہ تھی منزل
کہ ہم کو چھوڑ کہ ساتھی رواں ہمارے ہویے

(4)




ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ھیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ھیں

جدائیاں تو مقدر ھیں پھر بھی جانِ سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ھیں

راہ وفا میں حریفِ خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ھیں

تو سامنے ھے تو پھر کیوں یقیں نہیں*آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ھیں

یہ کون لوگ ھیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ھیں

یہ قرب کیا ھے کہ یکجاں نہ ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں*ڈھل کے دیکھتے ھیں

نہ تجھ کو مات ہوئی نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں*بدل کے دیکھتے ھیں

یہ کون ھے سرِ ساحل کہ ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ھیں

ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ھیں

بہت دنوں سے نہیں ھے کچھ اس کی خیر خبر
چلو فراز کو ، اے یار چل کے دیکھتے ھیں

(5)




مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا

وہ اپنے زعم میں تھا، بےخبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں*، میں*نہیں رہا اس کا

وہ برق رو تھا مگر رہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا

چلو یہ سیلِ بلاخیز ہی بنے اپنا
سفینہ اُس کا، خدا اسکا، ناخدا اس کا

یہ اہلِ درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہوتو زمانہ ہے ہمنوا اس کا

ہمی نے ترکِ تعلق میں پہل کی کہ فراز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا


 پروین شاکر

(1)



شکن چپ ہے
بدن خاموش ہے
گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں، لیکن
میں گھر سے کیسے نکلوں گی
ہوا چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے
دیکھتے ہی مسکرائے گی !
مجھے چھو کر تری ہر بات پا لے گی
تجھے مجھ سے چُرا لے گی
زمانے بھر سے کہ دے گی میں تجھ سے مل کہ آئی ہوں !
ہوا کی شوخیاں یہ
اورمیرا بچپنا ایسا
کہ اپنے آپ سے بھی میں
تری خوشبو چھپاتی پھر رہی ہوں !

(2)



سوچوں تو وہ ساتھ چل رہا ہے

دیکھوں تو نظر بدل رہا ہے

کیوں بات زباں سے کہہ کے کھوئی

دل آج بھی ہاتھ مَل رہا ہے

راتوں کے سفر میں وہم ساتھا



یہ میں ہوںکہ چاند چل رہا ہے

ہم بھی ترے بعد جی رہے ہیں

اور تُو بھی کہیں بہل رہا ہے

سمجھا کے ابھی گئی ہیں سکھیاں

اور دل ہے کہ پھر مچل رہا ہے

ہم ہی بُرے ہوگئے __کہ تیرا

معیارِ وفا بدل رہا ہے

پہلی سی وہ روشنی نہیں اب

کیا درد کا چاند ڈھل رہا ہے

(3)



اک شخص کو سوچتی رہی میں
پھرآئینہ دیکھنے لگی میں

اس کی طرح اپنا نام لے کر
خود کو بھی لگی نئی نئی میں

تومیرےبنانہ رہ سکا تو
کب تیرےبغیر جی سکی میں

آتی رہے اب کہیں سے آواز
اب تو ترےپاس آگئی میں

دامن تھا ترا کہ مرا ماتھا
جو داغ بھی تھے مٹا چکی میں

(4)



نرم حسّاس دل کے عوض،چارہ سازی خریدی گئی
اور یہ قیمت بہت ہی بڑی ہے۔۔بہت ہی بڑی

سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہَوا ہی لگا

میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی بھلا ہی لگا

زباں سے چُپ ہے مگر آنکھ بات کرتی ہے
نظر اُٹھائی ہے جب بھی تو بولتا ہی لگا

جو خواب دینے پہ قادر تھا، میری نظروں میں
عذاب دیتے ہُوئے بھی مجھے خدا ہی لگا

نہ میرے لُطف پہ حیراں نہ اپنی اُلجھن پر

(5)



ہتھیلی کی دعا پھول لے کے اٌئی ہو
کبھی تو رنگ میرے ہاتھ کا حنائی ہو

کوئی تو ہو جو میرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو

گلابی پاؤں میرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اگائی ہو

کبھی تو ہو میرے کمرے میں ایسا منظر بھی
بہار دیکھ کے کھڑکی سے مسکرائی ہو

وہ سوتے جاگتے رہنے کے موسموں کا فسوں
کہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ اٌئی ہو

(6)



اُس نے میرے ہاتھ میں باندھا
اُجلا کنگن بیلے کا
پہلے پیار سے تھامی کلائی
بعد اُس کے ہولے ہولے پہنایا
گہنا پُھولوں کا
پھر جُھک کرہاتھ کرچُوم لیا!
پُھول تو آخر پُھول ہی تھے
مُرجھا ہی گئے
لیکن میری راتیں ان کی خوشبو سے اب تک روشن ہیں
بانہوں پر وہ لمس ابھی تک تازہ ہے
(شاخِ صنوبر پر اِک چاند دِمکتا ہے)
پُھول کا کنگن
پیار کا بندھن
اَب تک میری یاد کے ہاتھ سے لپٹاہُوا ہے

(7)



ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا!
بجتے رہیں ہواؤں سے در، تم کو اس سے کیا!


تم موج موج مثل صبا گُھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ کے پر ،تُم کو اس سے کیا


اوروں کا ہاتھ تھامو ، انھیں راستہ دکھاؤ
میں بُھول جاؤں اپنا ہی گھر ، تم کو اس سے کیا


ابرِ گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گُہر،تم کو اس سے کیا!


لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے توڈال دی ہے سپر، تم کو اس سے کیا!


تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگالیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم کو اس سے کیا

(8)



نئی آنکھ کا پُرانا خواب
آتش دان کے پاس
گُلابی حّدت کے ہالے میں سمٹ کر
تجھ سے باتیں کرتے ہوئے
کبھی کبھی تو ایسا لگا ہے
جیسے اُوس میں بھیگی گھاس پہ
اُس کے بازو تھامے ہوئے
میں پھر نیند میں چلنے لگی ہوں



 1  2

0 comments:

Post a Comment