یہاں بارش نہیں ہوتی
یہاں ایک مدت سے بادل نہیں آیا
میں وہاں گیا جہاں دھوپ کم نکلتی ہے
اور منظر سبزے میں لپٹے رہتے ہیں
تم وہاں نہیں ملے پھر میں نے تمہیں گھنے
درختوں والے جنگل اور گنگناتی لہروں والے دریا
کے آس پاس ڈھونڈا تم وہاں بھی نہیں تھے پھر میں
سرد ہواؤں والی بستیوں میں گیا
بستیاں اکیلی تھیں..میں نے برف پوش چوٹیاں
بھی کھوج ڈالیں جو تمہارے بغیر چپ چاپ
اور گم صم کھڑی ہوئی تھیں پھر میں وہاں جا پہنچا...جہاں بارشیں ہوتی ہیں
اور تمہیں بہت تلاش کیا ان بارشوں
کا بھی کوئی نام کوئی چہرہ نہیں تھا
پھر تھک ہار کے لوٹ آیا
واپس اپنے خالی دل میں
====================================================================
مجھ کو وقت لکھتا ہے
میں بھی اک کہانی ہوں
مجھ کو وقت لکھتا ہے
یا گلاب شاخوں پر
آندھیوں کے دامن پر
زرد پیلے پھولوں پر
بارشوں کے موسم میں
یا حسین جبینوں پر
بے صدا دریچوں پر
بے نشان جزیروں پر
بے لباس خوابوں پر
رینگتے سرابوں پر
تم بھی ایک کہانی ہو
یا اداس پیڑوں پر
بارشوں کے آنچل پر
سرپھری سی لہروں پر
رتیلی زمینوں پر
نیم و کواڑوں پر
بے نوا منڈیروں پر
خواہشوں کے جنگل میں
رتجگوں کے موسم میں
میں بھی تم کو لکھوں گا
یا گلاب شاخوں پر
اور اپنی آنکھوں کے
زندگی کے ان گنت
زرد پیلے پھولوں پر
بارشوں کے موسم میں
آندھیوں کے دامن پر
یا اداس پیڑوں پر
بے سوال خوابوں پر
بے طلب سرابوں پر
سرپھری سی لہروں پر
رتیلی زمینوں پر
بارشوں کے آنچل پر
میں بھی تم کو لکھوں گا
میں بھی اک کہانی ہوں
مجھ کو وقت لکھتا ہے
==========================================================
اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
========================================================
نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے
بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے
یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے
بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے
ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا نے
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے
نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے
نہ با یزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب وہ سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاؤ ہو خانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے
نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے
بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے
تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے
یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے
ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے
ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہو گئے ہیں پھر آباد آج میخانے
وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے
جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے
اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے
ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے
کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل
لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے
تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے
یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں
تیری نگاہ سے پیتے ہیں تیرے دیوانے
نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے
مہاری چشمِ حیراں میں کہیں ٹہرا ھوا آنسو
تمہاری چشمِ حیراں میں کہیں ٹہرا ھوا آنسو
لبوں پر ان کہی سی بات کا پھیلا ھوا جادو
بہت بے ساختہ ھنستے ھوۓ
خاموش ھو جانے کی اک ھلکی سی بے چینی
تمہارے دونوں ھاتھوں کی کٹوری میں
سنہر ے خواب کا جگنو
گلابی شام کی دھلیز پہ رکھا ھوا
اک ریشمی لمحہ
تمہاری نرم سی خوشبو سے وہ مہکا ھوا
اک شبنمی جھونکا
محبت میں یہی میرے اثاثے ھیں
عشق ہمارا پیشہ ٹھہرا عاشقی اپنی ذات ہوئ
==============================================================
آج ہماری آنکھوں سے پھر اشکوں کی برسات ہوئ
گھر آئ پھر سے تاریکی جیون میں پھر رات ہوئ
ہم کو تو جس جس نے دیکھا بولا پاگل دیوانہ
عشق ہمارا پیشہ ٹھہرا عاشقی اپنی ذات ہوئ
بکھری تیرے پیار کی خوشبو جونہی ہم نے موندی آنکھیں
ہوتے ہوتے نیند ہماری یادوں کی بارات ہوئ
ہم سے بھی رکھتے ہو رشتہ فکر بھی تم کو اوروں کی
چاہت میں بھی دنیا داری خود سوچو کیا بات ہوئ
سپنے جیتے آنکھیں ہاریں دل جیتا اور دھڑکن ہارے
بازی اپنے ہاتھ میں تھی پر من مرضی سےمات ہوئ
ڈال دئیے دریا میں گھوڑے آگ لگا دی کشتی کو
ہاتھ میں جس کے سورج قسمت اس کی ساتھ ہوئ
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
=============================================================
اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہوگئ،دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے، میں کب تک ترا رستہ دیکھوں
ایک اک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کرکے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے مگر مرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
دیوانگی خرابیِ بسیار ہی سہی
کوئی تو خندہ زن ہے چلو یار ہی سہی
وہ دیکھنے تو آئے بہانہ کوئی بھی ہو
عذرِ مزاج پرسیِ بیمار ہی سہی
رشتہ کوئی تو اُس سے تعلق کا چاہئے
جلوہ نہیں تو حسرتِ دیدار ہی سہی
اہلِ وفا کے باب میں اتنی ہوس نہ رکھ
اِس قحط زارِ عشق میں دو چار ہی سہی
خوش ہوں کہ ذکرِ یار میں گزرا تمام وقت
ناصح سے بحث ہی سہی تکرار ہی سہی
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ دار ہی سہی
ہوتی ہے اب بھی گاہے بگاہے کوئی غزل
ہم زندگی سے برسرِ پیکار ہی سہی
اک چارہ گر ہے اور ٹھکانے کا ہے فراز
دنیا ہمارے درپئے آزار ہی سہی
وُسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
وُسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اِک وصل کو اِک ہجر کی حالت لکھا
میں نے لکھا کہ صفحۂ دل کبھی خالی نہ ہو
اور کبھی خالی ہو بھی تو ملامت لکھا
میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا
میں نے دستک کو لکھا کشمکشِ بے خبری
جُنبشِ پردہ کو آنے کی اجازت لکھا
میں نے خُوشبو کو لکھا دسترسِ گمشدگی
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا
زخم لکھنے کےلئے میں نے لکھی ہے غفلت
خُون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا
حُسنِ گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا
میں نے تعبیر کو تحریر میں آنے نہ دیا
خواب لکھتے ہوئے محتاجِ بشارت لکھا
کوئی آسان رفاقت نہیں لکھی میں نے
قُرب کو جب بھی لکھا جذبِ رقابت لکھا
اتنے داؤں سے گزر کر یہ خیال آتا ہے
عزم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا
1 2 3
0 comments:
Post a Comment